اپنے بچوں کو امتحان کے دنوں میں خوش رکھیے
ملک بھرمیں امتحانات کا موسم ہے اور والدین کی بد حواسی عروج پر، کچھ دن پہلے ہی جو ٹیچرز کے ساتھ والدین کی ملاقات کا اسکول کی جانب سے اہتمام کیا گیا اس
میں ٹیچرز نے والدین کو بچے کی جماعت کی کارکردگی بتا کر بوکھلا کر رکھ دیا ہے، پھر یہ بھی تو ہے کہ اگر نند کے بچوں نے ہمارے بچوں سے اچھے نمبر لے لیے تو
ساس صاحبہ سارا الزام بہو کی سستی اور کاہلی پر ڈال دیں گی، اگر جیٹھ کے بچوں کی پوزیشن آگئی تو کسی کو منہ دکھا نے لائق نہیں رہیں گے، امتحان نہ ہوئے کوئی وبائی
بیماری پھوٹ پڑی ہے، گھر بھر اسپتال بنا ہوا ہے، ٹی وی آہستہ کریں بچے پڑھ رہے ہیں، ہم شادی میں نہیں جائیں گے بچوں کے امتحان ہیں، ٹھنڈا پانی مت پیو بیمار پڑ
گئے تو امتحان کون دے گا۔ رات کے دو دو بجے تک بچوں سے جوابات رٹوائے جا رہے ہیں
مگر تسلی ہو کے نہیں دے رہی، اچھے خاص زہین بچے مگر گھبراہٹ میں ان سے بھی ٹھیک طرح
یاد نہیں ہو تا۔
امتحانات کی اہمیت اجاگر کرنا ضروری ہے لیکن بچوں کی شگفتگی اور خوشیوں کی قیمت پر نہیں۔ امتحانات کو پرلطف بنا ئیں۔ امتحانات کے دوران بچوں کے معمولات
تبدیل کرنے کے بجائے اپنے معمولات تبدیل کریں، بچے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں، ہر روز کسی نہ کسی بہانے بچوں کے ساتھ گھر سے باہر ضرور
نکلیں، کبھی اس کے لیے اسٹیشنری، کبھی اسکول بیگ، واٹر بوٹل، لنچ باکس، کبھی نیا یونی فارم، چاکلیٹس، بسکٹس اور مختلف قسم کی اس کی پسند کی اشیا ء خریدیں۔ اس
طرح وہ خود اگلی کلاس میں جا نے کے لیے پر جوش ہو گا، اور شوق سے پڑھے گا۔ بچے کی عمر کے حساب سے اس کی پسند کے کچھ کھلونے بھی خریدیں تاکہ جب آپ کے بچے کا ذہن تھک جا ئے تب وہ کسی کھلونے سے کھیل سکے۔
امتحان کے دنوں میں بچے کو زیادہ سے زیادہ خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ اگر کسی سوال کا جواب مشکل الفاظ میں ہے تو آپ اسے آسان کر دیں، اگر طویل ہے، تو
اس کے تین حصے کر دیں اور ہر حصے کا ایک سوال بنا دیں۔ اگر کوئی جواب اسے یاد ہی نہ ہو رہا ہو تو کہہ دیں کہ اسے چوائس میں چھوڑ دینا۔ اگر آپ اپنے بچوں کو خود
نہیں پڑھاتے تو یہ بات ٹیوٹر کے گوش گزر کر دیں۔ امتحان کے دنوں میں اگر کو ئی تقریب آجا ئے تو بچوں کے ساتھ شرکت کریں اور دو چار گھنٹوں کو کسی طرح
مینیج کر لیں بچے کے لیے امتحانات کی تیاری کے دوران مختلف تفریحی سرگرمیاں بہت ضروری ہیں اس طرح وہ کسی بھی سوال کا جواب ایک گھنٹے کے بجا ئے دس
منٹ میں یا د کر لے گا، آپ بچے پر جتنا کم ذہنی دبا ؤ ڈالیں گے اس کی ذہانت اور جواب کو سمجھنے کی صلا حیت میں اتنا ہی اضافہ ہو گا۔ بچے کو سمجھ کر پڑھنے دیں۔
امتحانات کے نتائج کی فکر میں
خود کو اور بچے کو ہلکان مت کریں۔
کوشش کریں کہ امتحان کے دنوں میں بچے کے سونے کے اوقات تبدیل کر دیں اسے سرِ شام سلا دیا کریں۔ صبح کا وقت پڑھا ئی کے لیے بہترین ہو تا ہے۔ اس
وقت کسی مہمان کا آنا جانا، اور سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ مختلف شور شرابے بچے کے انہماک کو متاثر نہیں کرتے۔ اور اگر اس کا امتحان ہے تب بھی رات دیر تک پڑھنے کے بجا ئے اسے جلدی سلا دیں، اگر کچھ باقی رہ گیا ہے یا دہرائی کے لیے اسے الصبح جگا دیں۔
ہمارے ہاں کیمبرج سسٹم میں بھی آٹھویں جماعت تک امتحانات کا طریقہ ء کار میٹرک سسٹم جیسا ہی ہے، لیکن ہمارے سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری بورڈز تک
امتحانات کا وہی بوگس، فرسودہ سالہا سال سے چلتا چلا آرہا امتحانی نظام ہے، جس کی وجہ سے والدین اور استاد تو درکنار بچہ خود اپنی اس پوشیدہ فطری صلا حیت کو
دریافت کرنے میں ناکام رہتا ہے، جس کے بل پر وہ اس دھرتی کے صفحے پر اپنے دستخط کر کے اپنے ہونے کا ثبوت دے سکتا تھا۔ کبھی خوش قسمتی سے کوئی استاد،
دوست یا رشتے دار، اس کی کسی فطری صلاحیت کی جانچ کر کے والدین کو آگا ہ کردے تو والدین کے تاثرات اس قسم کے ہوتے ہیں گویا انہوں نے بچے کی لاعلاج
بیماری کا نام سن لیا ہو۔ اب یہ بتا نے کی تو ضرورت نہیں کہ ہمارے ہاں، مصوری، گلو کاری اور ادب جیسے فنونِ لطیفہ کو اگر گناہ نہیں تو اسے مفلسی کی طرف ایک
قدم ضرور سمجھا جا تا ہے۔ ہم آپ اور بہت سے کامیاب اور اپنی زندگی سے مطمعین لوگ اسی سسٹم سے پڑھ کر نکلے ہیں، لیکن موجودہ دور میں دنیا بھر میں تدریسی اور امتحانی طریقہ کار تبدیل ہو چکا ہے۔ اس انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کے دور میں بچوں کے تعلیمی، امتحانی نظام، اور والدین کی سوچ میں انقلابی تبدیلی کی ضرورت
ہے۔
ہم امتحانات کی چیکنک والے ہال میں بچوں کے پرچوں کی جانچ کر رہے
تھے۔ ہمارے برابر بیٹھی ٹیچر اپنے بچے سے فون پر بات کر رہی تھیں۔ گو کہ کسی کی
باتوں پر دھیان دینا تہذیب کے خلاف ہے لیکن بات ہی کچھ ایسی تھی کہ مجھے دھیان
دینا پڑا۔
کیا۔ ؟ یہ رزلٹ ہے تمہارا، شرم آنی چاہیے تمہیں، میں نے تمہیں پہلے
ہی کہا تھا کہ پڑھائی پر دھیان دو، اب ٹھہرو میں تمہیں آ کر ٹھیک کرتی ہوں۔ دوسری
طرف سے کچھ کہا گیا۔ اچھا یہ بتاؤ وقار کا رزلٹ کیسا رہا، اور دانیال، ( کچھ رک
کر )، اور نومی، دیکھا نومی تک اے گریڈ لایا، اچھا نومی کی پرسنٹیج کیا ہے، اور
تمہاری۔ دیکھا تمہاری تو پر سنٹیج بھی اس سے کم ہے۔ مجھے معلوم تھا یہ ہی ہو گا،
میں تمہیں پہلے ہی کہتی تھی، تم اپنے سارے دوستوں سے نکمے ہو۔
انہوں نے غصے میں فون اپنے پرس میں ڈال کر اپنا سر جھٹکا۔ اور اپنے
سامنے رکھی کاپی کے جواب پر لمبے لمبے درست کے نشانات لگانے لگیں، مہنگے اسکول کے
یہ فائدے ہیں بندہ غصے میں بھی ہو تو طالب علم کا بھلا ہی ہوتا ہے جو اگر وہ
سرکاری اسکول کی ٹیچر ہوتیں تو کافی جوابات قلم زد ہو چکے ہو تے۔
ہم نے ان کی طرف دیکھا اور کہا سبین! میں نے ایک بات تہذیب کے خلاف
کی ہے وہ یہ کہ تمہاری ساری گفتگو سن لی ہے۔ لیکن تمہارا غصہ بلا وجہ ہے۔
وہ بولی، مس اس کا بی گریڈ آیا ہے، اور پر سینٹیج بھی کم ہے۔
تو کیا ہوا؟ پاس ہوا ہے، اب اگلی کلاس میں جا ئے گا۔ یہ تو خوشی کی
بات ہے۔ وہ پھر غصے کا اظہار کرنے لگیں۔ کافی دیرمیرے سمجھانے پر ان کا غصہ ٹھنڈا
ہوا۔ تو میں نے کہا اب آپ گھر جاتے ہوئے اس کے لیے کوئی گفٹ اور آئس کریم لیتی
جائیے گا۔
اس کا پارا پھر چڑھ گیا۔ ایسا تو میں بالکل بھی نہیں کروں گی۔ اس
کا دماغ خراب ہو جا ئے گا اگلے سال تو پھر فیل ہی ہو جائے گا۔ انہوں نے ایک اور
جواب پر بڑا سا ٹِک لگاتے ہوئے کہا۔
اگلے روز سبین مجھے ملی، تو سیدھی میرے پاس آئی اور کہنے لگی، مس میں نے آپ کی بات
پر غور کیا، میں جاتے ہوئے اپنے بیٹے کے لیے گفٹ اور کیک لے گئی تھی۔ میں نے اسے
گلے لگایا اور پیار کیا۔ میرے اس غیر متوقع ردّ عمل پر وہ اتنا خوش ہو گیا تھا کیا
بتاؤں، ورنہ وہ تو ڈرا بیٹھا تھاآپ نے مجھے اچھا مشورہ دیا۔ مجھ سے کہنے لگا اب
وہ شروع دن سے اپنی اسٹڈی پر دھیان دے گا۔ میرے بچے کا دن آپ نے خاص بنا دیا۔ آپ
کا بہت شکریہ۔
میں سوچنے لگی، بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں اس لیے کبھی کبھی بد تہذیبی بھی نیک
ثابت ہوتی ہے۔
امتحانات کے بعد امتحان کا نتیجہ برا آنے اور اس کے انجام سے اپنے
بچے کو نہ ڈرائیں، نتیجہ خراب آنے کا خوف اس میں نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا کر سکتا
ہے، اس کی فطری صلا حیتوں کو ضائع کر سکتا ہے۔ زندگی میں کا میابی اور ناکامی کا
انحصار اس کے امتحان میں اچھے گریڈ لینے سے نہیں بلکہ اس کی ذہانت، اور اعتماد سے
ہے۔ وہ رپورٹ کارڈ جس میں آپ کے بچے کے امتحانی نتائج کی تفصیل ہو گی، اس کی حیثیت
صرف اگلی کلاس میں جانے تک ہے۔
بچے کی زندگی میں کامیابی کا پیمانہ اس کے رپورٹ کارڈز میں دیے گئے
مار کس اور ریمارکس نہیں، بچے کی اول، دوم اور سوم پوزیشن کی جانچ کا معیار صرف اس
بات پرہے کہ کس نے کتنا اچھا رٹا لگایا، آپ اپنے یا کسی کے بچے کے مستقبل اور اس
کی صلا حیت کا فیصلہ روپورٹ کارڈ دیکھ کر نہیں کر سکتے۔ اپنے بچے کو اہم سمجھیں،
اس کی رپورٹ کارڈ کو نہیں، نہ ہی اس کی امتحانی کارکردگی کو دوسروں کی امتحانی کار
کردگی سے جانچیں۔ ہر بچہ خاص ہے کسی نے آپ کے بچے سے زیادہ اچھی پوزیشن لی ہے تو
اس بات کا احساس دلا کر اپنے بچے کے اعتماد اور اس کی شخصیت کو مسخ مت کریں۔ اپنے
بچے پر فخر کریں اور اسے اس کا احساس بھی دلائیں۔ کہ وہ اور اس کی ذات آپ کے لیے
باعث فخر ہے۔ تب دیکھیے وہ اپنی صلاحیتوں کو ایک آزادانہ ماحول میں کس طرح مہمیز
کرتا ہے۔ اپنے بچے کی صلاحیت اور کار کردگی کا کسی سے مقابلہ نہ کریں۔ اس طرح بچے
میں احساس کم تری اور دوسروں کے لیے حسد کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔
مجھے آج بھی یاد ہے وہ بچی جو اپنی سیکنڈ پوزیشن آنے پر بری طرح رو
رہی تھی، کیوں کہ اس کی والدہ نے اسے ایک دن پہلے ہی اپنے دیور کی بچی کی اسکول
میں پہلی پوزیشن آنے کی اطلاع پر سخت ہراساں کیا ہوا تھا کہ اب تمہاری بھی پہلی
پوزیشن آنی چاہیے۔
ایک والد اپنے بیٹے کی عمدہ رپورٹ کارڈ دیکھ کر کبھی خوش نہ ہو تے،
ہمیشہ اسے اس سبجیکٹ کے لیے ڈانٹا کرتے جس میں اس کے نمبر دیگر مضامین کے مقابلے
میں کم آئے ہو تے۔ میں نے اس بچے کی آنکھوں میں ہمیشہ اپنے باپ کے لیے نفرت محسوس
کی۔
رپورٹ کارڈ دیکھ کر آپ کا بچے کے ساتھ برتاؤ بچے کی نفسیات اور شخصیت پر گہرا اثر ڈالتا ہے نتیجے کے طور پر آپ اپنے ہی ہاتھوں بچے کے مستقبل کو برباد کر دیتے ہیں۔ اس رپورٹ کارڈ میں اس کی رٹنے کی صلاحیت آشکار ہوئی ہے، اس کی قابلیت اور ذہانت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ بچوں کی پوزیشن کی دوڑ میں حصہ لیتے
والدین
اپنی لڑکیوں کے بالغ ہو تے ہی کسی اچھے رشتے آنے پر ان کے ہاتھ پیلے کر دیتے ہیں
اور لڑکوں کا دل پڑھا ئی سے اچاٹ چکا ہو تا ہے۔ وہی بچہ جو آپ کے خوف سے امتحان
میں پوزیشن لا تا تھا اب انٹر میڈیٹ کلیئر کرنا اس کے لیے عذاب ہو چکا ہے۔ اور
نتیجے کے طور پر اسے تعلیم کا سلسہ ہی ختم کرنا پڑا۔ اب وہ ہٹ دھرم، بد تمیز اور
ضدی ہو چکا ہے۔ وہ من مانی کرتا ہے۔ ہمارا تعلیمی اور امتحانی نظام بدلنے کی تو
گلے بیس سال کو ئی امید نہیں، لیکن آپ تو اپنی سوچ بدل سکتے ہیں بچوں کا بچپن، ان
کی صلاحیت اور ان کا مستقبل اپنے رشے داروں کے بچوں سے مقابلے کی دوڑ میں ضائع مت
کیجیے۔
No comments: