مندرجہ زیل کام کریں اور گارنٹی کے ساتھ امتحان میں کامیاب ہو جائے
بچے ہمارا اثاثہ اور ہماری کل کائنات ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے وارث اور ہمارا
آنے والا کل اور پاکستان کا مستقبل ہیں۔ اس لیے جہاں ہمیں ان کی جسمانی صحت کا بہت
زیادہ خیال رکھنا ہوتا ہے وہیں ان کی ذہنی نشوو نما پر بھی لازمی توجہ دینی ہوتی
ہے۔خا ص طور پر امتحانات کے دنوں میں جب ان پر پڑھائی کا اضافی بوجھ ہوتا ہے تب
ہمیں ان کا بہت زیادہ خیال رکھنا ہوتا ہے۔ ان کے کھانے پینے کے اوقات اور ان کے
آرام کے وفت کو بہترین بنانا ہوتا ہے تاکہ وہ پھر سے تازہ دم ہوکر پڑھائی کے لیے
تیار ہو سکیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض بچے بہت حساس ہوتے ہیں اور امتحانات کو دباؤ کے طور پر
قبول کرتے ہیں اور گھبرا جاتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سکون سے تیاری
نہیں کرپاتے اور اپنے وقت کو بہترین طریقے سے استعمال نہیں کرپاتے۔ تب ایسے وقت
میں آ کو چاہیے کہ انہیں پرسکون کریں اور حوصلہ دیں اور ساتھ ساتھ ان کی مدد کریں۔
ان سیبات کریں۔ ان سے پڑھائی میں پیش آنے والے مسئلوں کے بارے میں پوجھیں اس سے
انہیں اندازہ ہوگا کہ آپ ان کی پڑھائی میں دلچسپی لیرہیے ہنں اور یہ بات انہیں
احساس دلائے گی کہ انہیں اور محنت کرنی ہے۔امتحانات کی تیاری کے سلسلے میں سب سے
بزا مسئلہ جو بچوں کو ہوتا ہے وہ ہے شیڈول بنانا ، مضامین کی تیاری کے حساب سے وقت
کو ترتیب دینا ، ادھورے کام مکمل کرنا، تمام اسباق کو دوبارہ پڑھنا اور جو اسباق
مشکل ہوان کولکھ کر یاد کرنا ، یہ وہ تمام بنیادی باتیں ہیں جو امتحان کی تیاری
میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ امتحانات سے تین ہفتے قبل بچوں کے ساتھ بات کر کے اس بات
کو یقینی بنائیے کہان کا تمام کام مکمل ہو تاکہ انہیں تیاری میں کسی قسم کی دقت
پیش نہ آئے۔ اگر انہیں کسی بات کو سمجھنے میں دقت پیش آرہی ہے تو اس سلسلے میں
استاد یا کسی دوست سے مدد لی جاسکتی ہے۔اگر تو سکول میں ٹیسٹ سیشن ہو رہے ہوں تو
اچھی بات ہے وہ باقاعدگی سے اٹینڈ کرنے چاہیں اور اگر گھر میں تو ان کا ٹائم ٹیبل
ایسا بنائیں صبح ان کا من پسند ناشتہ کروائیں اور کچھ وقت ٹی وی دیکھیں پھر انہیں
پڑھنے کے لیے بٹھادیں ساتھ تھوڑے تھوڑے وقفے سے انہیں آکر دیکھیں ان سے بات چیت
کریں اور چیک کریں۔ کوشش کریں امتحانات کے دنوں میں کہیں باہر جانا آنا یا گھر میں
مہمانوں کی آمدورفت نہ ہواس سے بچوں کی توجہ پٹتی ہے اور ان کا دھیان پڑھائی سے ہٹ
جاتا ہے۔ایسے میں وہ توجہ سے پڑھ نہیں پاتے۔
شیڈول بنانا :
آپ کو چاہیے بچوں کے ساتھ شامل ہوکرایسا ٹائم ٹیبل بنائیں جس پر وہ آسانی سے اپنی
تیاری کر سکیں۔ ویس تو ہر بجے کی اپنی سوچ اور مزاج ہوتا ہے جیسے کہ بعض بچے ایس
ہوتیہیں جنہیں آپ مضمون آسان اپنے ا الفاظ میں سمجھائیں تو وہ جلدی سمجھ لیتے ہیں
اورمضمون کی خاص باتیں انہیں یاد ہوجاتیں ہیں۔ کچھ بچے لکھ کر یاد کرتے ہیں۔ کوشش
کریں انہیں لکھے کی عادت ہو۔ دو سے تین گھنٹے توجہ سے پڑھنا کافی ہوتا ہے۔ اس کے
پعد کچھ دیر کے لیے انہیں چھٹی دے دیں۔بریک میں انہیں ان کی پسند کی چیز بنا
کردیں۔کچھ دیر ٹی وی دیکھیں یا کمپیوٹر گیم کھیلیں۔ ان کے ساتھ باتیں کریں۔ درمان
میں وقفے وقفے سے ان سے پوچھیں جو کچھ انہوں نے یاد کیا ہے۔ ان کی حوصلہ افزائی کے
لیے ان کی تعریف کریں سراہیں اور کپھی انعام بھی دیں ضرور۔
ادھورے کام مکمل کرنا :
پعض اوقات سکول سے غیر حاضری کے باعث بچوں کے کچھ کام ادھورے رہ جاتے ہیں۔ کسی وجہ
سے یا پھر لاپرواہی کے باعث مکمل نہیں کرپاتے۔ کوشش کریں امتحان شروع ہینے سے قبل
ہی ان کی تمام کاپیوں پہ کام مکمل ہوں تاکہ انہیں کوئی پریشانی نہ ہو۔ ممکن ہو تو
دوست سے کاپی لے کر کام مکمل کروائیں یاپھر اپنے استاد سے مدد لے لیں۔ کچھ چیزیں
ایسی ہوتی ہیں جنہیں بچے خود بھی مکمل کر سکتے ہیں اور آپ بھی مکمل کرواسکتے ہیں۔
مشکل مضامین کی تیاری:
پچوں کی عادت ہوتی ہے جن مضامین کو وہ مشکل سمجھتے ہیں ان کی تیاری کرنے سے
گھبراتے ہیں۔ لکھ کر یاد نہیں کرتے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ انہیں یہ بات
سمجھائیں کہ محنت سیہر کام آسان ہو جاتا ہے۔ مشکل مضامین کو پڑھنے کا بہترین طریقہ
یہ ہے کہ پہلے انہں سمجھ کر پڑھنا چاہیے اور پھر لکھ کر یاد کرنا چاہیے۔ سکولوں
میں زیادہ تر رٹا سسٹم کامیاب ہے اور اسی پر زور دیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ
بچے اپنے ذہن سے جوکچھ لکھتے ہیں وہ ان کی ذہانت کا ثبوت ہوتا ہے۔ اس سے ان کا ذہن
کھلتا ہے اور ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
مضمون کے حساب سے وقت کی تقسیم :
آپ نے اکثر نوٹ کیا ہوگا کہ بچے جن مضامین میں اچھے ہوتے ہیں ، ان کی بار بار
پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ انہی کی بات کرتے ہیں۔ ضروری بات یہ ہے اگر امتحان میں اچھے
نمبر کیا گریڈ لینے ہیں تو سبھی مضامین کومناسب وقت دینا چاہیے تاکہ کسی ایک مضمون
میں کم نمبر آنے سے پوزیشن خراب نہ ہو۔اس لیے امتحان کی تیاری کرواتے ہوئے انہیں
یہ بات سمجھائیں ہر مضمون کو برابر وقت دیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ جن مضامین میں انہیں
مشکل پیش آتی ہے ،ان کو وہ اضافی وقت میں تیار کریں یا پھر ان کو دوبارہ پڑھیں۔
تاکہ انہیں پعد میں بھول نہ جائیں۔پعض مضامین ایسے ہوتے ہیں جن کو بہت زیادہ توجہ
کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایسے مضامین ہوتے ہیں جن کی مکمل تیاری سے آ پ کو اتنے مارکس
مل جاتے ہیں جن سے گریڈ اچھے بنتے ہیں۔ جیسے کہ انگلش اور حساب ان میں نمبر کٹنے
کے کم چانسس ہوتے ہیں۔ اس لیے کوشش کریں ان مضامین میں پوری تیاری کریں۔
پیپر کیسے کرنا چاہیے :
امتحان میں جہاں مضمون پہ عبور حاصل کرنا ضروری ہے وہیں اس بات کی بھی بہت اہمیت
ہے کہ بچوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ پیپر کیسے کرتے ہیں ؟انہیں سمجھائیں کہ پیپر
شروع کرنے سے پہلے دعا ضرور پڑھیں اور پھر اطمینان سے پورا بیبر پڑھیں۔جو پیپر
کرنے کا طریقہ استاد نے بتایا ہے اسے بھی ذہن میں رکھیں اور وقت کا دھیان بھی
رکھیں تاکہ وقت پر ابنا پیپر ختم کرسکیں۔ سوال کو اس کے مارکس کے حساب کریں۔ بعض
اوقات غیر ضروری طوالت بھی پیپر پڑھنے والے کو بور کرتی ہے۔ پاقی سوالات کے لیے
وقت کم بچتا ہے۔ لکھائی بڑی اور صاف ستھری ہونا چاہیے۔ پیپر ختم کرنے کے بعد ایک
مرتبہ ضرور دیکھں ویسے بچوں میں یہ عادت نہیں ہوتی مگ آپ انہیں اس بات ک عادت ڈال
دیں گے تو یہ اگلی کلاسوں میں ان کے بہت کام آئے گی۔
نماز کی عادت :
اللہ نے ہر مشکل وقت میں کامیابی کے لیے دعا سے مدد لینے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے اس
بات کو ممکن بنائیں کہ بچے امتحان کے دنوں میں نماز سے غافل نہ ہوں۔انہیں ذہن نشین
کروائیں کے ان کو اپنی محنت کے ساتھ ساتھ اللہ سے مدد بھی مانگنی چاہیے۔ اپنی
کامیابی کے لیے دعا پھی ضرور کرنی چاہیے اور اس پر یقین بھی رکھنا چاہیے۔ اس سے نہ
صرف ان میں نماز کی عادت پختہ ہوگی بلکہ آگے زندگی میں پیش آنے والی مشکلات میں
بھی وہ نماز اور دعا کو اپنا سہارا سمجھیں گے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ابتدائی عمر میں جو سوچ اور عادتیں آپ اپنے بچوں میں ڈالیں
گی انہی اصولوں پہبچوں کی شخصیت کی تعمیر ہوگی۔اسی لیے انہیں محنت کا ، پڑھائی میں
بلند مقام کا، ہر مشکل میں اس پروردگار کو پکارنے کا عادی بنائیں تاکہ زندگی میں
کسی مقام پر پیچھے نہ رہیں۔ کامیاپی ان کے قدم چومے اور وہ کامیاب و کامران رہیں۔
No comments: