بچوں کے امتحانات اور والدین کا طرزِ عمل
مارچ اور اپریل کے مہینے والدین اور بچوں کے لیے کافی اہمیت کے
حامل ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس دوران پورے ملک میں امتحانوں کا ماحول ہوتا ہے اور ہر
کوئی اس میں مصروف نظر آتا ہے۔ اور اسی سے متعلق ہر جگہ گفتگو اور بحث و مباحثے
ہوتے ہیں۔ بچوں کے گروہ اور ٹولیاں ٹیوشن سینٹر، ٹیٹوریل اور اساتذہ کے گھروں کو
آتے جاتے نظر آتے ہیں۔ اونچی جماعتوں کے طلباء میں تو زیراکس سنٹر یا گائیڈ و
کنجی (Key) کے حصول کے لیے سرگرداں نظر آتے ہیں۔ بعض کو تو امتحانوں کا
’’فوبیہ‘‘ ہوجاتا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس فوبیہ یا خوف سے کیسے نجات
پائیں اور امتحانوں کو تعلیم کے ایک جُز کی طرح کس طرح سے لیں اور بچوں پر بھی اس
کا خوف مسلط نہ کریں اس سلسلہ میں چند باتیں عرض کی جاتی ہیں۔
ضروری ہے تفریح
اکثر والدین بچوں کے امتحانات کی وجہ سے خود اتنے دہشت زدہ اور
گھبراہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں کہ خود ان کی اور بچوں کی پُر سکون زندگی درہم برہم
ہوجاتی ہے۔ گھر میں کرفیو لگ جاتا ہے۔ کھیلنا، ٹی وی دیکھنا، سیر سپاٹا، موج مستی
سب بند ہوجاتے ہیں اور بچوں کو امتحانات ایک خطرناک قلعہ محسوس ہوتا ہے جس سے باہر
نکلنا مشکل ہوجاتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ان دنوں بچوں کو عام دنوں کے مقابلے سیر و تفریح کی
ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ امتحانات کادباؤ پہلے سے ہی زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے میں
اگر اسے کہاجائے کہ امتحانات آگئے ہیں اور کھیل کود وغیرہ سب بند، تو ان کے ذہنی
دباؤ میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
بچوں کی تعلیم کسی بھی خاندان کے لیے نہایت اہم ہے۔ اور یہ بھی اہم
ہے کہ بچے پورے سال پڑھائی میں مصروف رہیں اور کسی بھی قسم کے دباؤ سے آزاد ہوکر
امتحان میں لکھ سکیں۔اس کی ذمہ داری ماں پر ہوتی ہے۔ لیکن کیا خاندانوں میں ایسا
ہوتا ہے؟ کیا مائیں عام طور سے ایسی ہوتی ہیں؟ اور کیا بچے بغیر کسی دباؤ اور
کشمکش کے امتحانات میں شریک رہتے ہیں؟ زیادہ تر لوگوں کا جواب ’نہیں‘ میں ہوگا۔
امتحان کا خوف یا ہوا
دراصل کئی بار امتحانات کا ہوّا اور خوف ہمارا خود کا پیدا کردہ ہو
تا ہے۔ جس کابچے اور خاندان پر خراب اثر پڑتا ہے۔ اس کے لیے ہم مندرجہ ذیل دو
مثالوں سے جائزہ لیں گے۔ ایک کا مثبت اثر پڑتا ہے اور ایک کا منفی۔
مثال نمبر:۱
افسری اور اس کی بہن نے امتیازی کامیابی حاصل کی ہے اور ’’ٹاپر‘‘
رہ چکی ہیں۔ ان کی ماں سے جب بچیوں کی اس کامیابی کا راز پوچھا گیا تو وہ ہنستے
ہوئے بولیں: کچھ خاص تو نہیں کیا۔ ہاں جب بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ پڑھائی سے
دل چرانے کی کوشش کررہی ہیں تو میں کہتی کہ : ’’چلو میرے ساتھ گھر کا کام کرو اور
میرا ہاتھ بٹاؤ‘‘ تو وہ کام سے بچنے کے لیے پڑھنے بیٹھ جاتی تھیں۔ اور ایک طرح سے
میں بھی یہی چاہتی تھی کہ وہ اپنی پڑھائی پوری کریں اور میں ان کے ذریعے اپنے
خوابوں کی تعبیر دیکھتی تھی۔ ہاں جب ان کا خود کا من ہوتا تھا تو وہ گھر کے کاموں
میں میرا ہاتھ بٹا دیتی تھیں۔ ان کے والد بھی خود تعلیم یافتہ ہیں تو وہ بھی بچوں
کی پڑھائی میں ضرور مدد کرتے تھے۔ یوں سمجھئے کہ ہم سب کی مشترکہ کوششیں تھیں اور
پڑھائی کے معاملے میں ہمارے درمیان کبھی بھی تو تو، میں میں نہیں ہوئی۔
مثال نمبر :۲
عائشہ کا معاملہ تو اس کے برعکس تھا۔ ان کی ماں کریمہ بیگم تو جیسے
دن بھر عائشہ کے پیچھے پڑی رہتی تھیں۔ چلو پڑھو، پڑھنے کا وقت ہوگیا ہے، ٹی وی بند
کرو، کیا بات ہے امتحانات قریب ہیں اور سہیلیوں سے گپ شپ ہورہی ہے۔ ایسے خالی کیوں
بیٹھی ہو، اتنا کم وقت باقی ہے امتحان کو، چلو اپنے کمرے میں، میں نے تو تمہارے
چکر میں کھانا تک نہیں پکایا۔ میگی کھالیں گے سب لوگ اور رات کو ایک گلاس دودھ پی
کر سوجائیں گے اور خبردار جو تم رات ۱۲؍بجے سے پہلے سوئیں۔ ابھی کورس بھی پورا نہیں ہوا۔اب آپ خود ہی
سمجھ سکتے ہیں کیا ہوگئی ہوگی بے چاری عائشہ کی حالت اور کتنا دباؤ ہوتا ہوگا اس
کے دماغ پر اور وہ کیا امتحان کی تیاری کرے گی۔ اور کیا امتحان میں لکھے گی؟ لازمی
بات ہے نتیجہ متاثر ہوگا۔
ذہنی دباؤ اور کشمکش سے
کیسے محفوظ رہیں؟
بچوں کا اگر سال بھر دھیان رکھا جائے اور توجہ دی جائے تو ظاہر ہے
کہ امتحان کے وقت ان پر کسی بھی قسم کا دباؤ نہیں رہے گا۔ والدین کو بالخصوص ماں
کو چاہیے کہ وہ ابتدا سے بچوں میں پڑھائی، نظم و ضبط، جسمانی ورزش اور متوازن و
مقوی غذا کی عادت ڈالیں۔ماں باپ اور سرپرست یہ نہیں سمجھ پاتے ہیں کہ امتحانات
لکھنا بچوں کا کام ہے اور انھیں ان کے کاموں میں تعاون کرنا ہے۔ اس کے برعکس
والدین امتحانات کو اپنے اوپر اس طرح حاوی کرلیتے ہیں جیسے امتحانات ان کے چل رہے
ہوں اور وہ لکھنے والے ہوں۔ والدین کی ضرورت سے زیادہ توجہ اور گھبراہٹ دیکھ کر
بچہ بھی گھبراہٹ کا شکار ہوتا ہے۔یا پھر وہ لاپرواہ ہوجاتا ہے۔ جس کا نتیجہ خراب
نکلتا ہے۔ بہتر ہے کہ والدین بچوں کی ذہنی کشمکش اور تناؤ کو کم کرنے کی کوشش
کریں اور ان پر جبراً اچھے نمبرات اور نتیجہ لانے کا دباؤ نہ ڈالیں۔ یہ دباؤ تو
اسکول اور ساتھیوں کی وجہ سے پہلے سے ہی ان پر ہے۔ مزید اس میں اضافہ نہ کریں۔
بلکہ والدین اور سرپرست اسے کم کرنے کی کوشش کریں۔
امتحان کا تناؤ یا دباؤ دو
طرح کا ہوتا ہے
امتحان میں بھی دو طرح کے دباؤ ہوتے ہیں اور یہ اچھے یا برے ہوتے
ہیں۔ اچھا دباؤ وہ ہے، جس کے تحت آپ نظم و ضبط سے رہتے ہیں اور آگے بڑھنا
سیکھتے ہیں۔ لیکن برا دباؤ بچوں کی دماغی صلاحیت کو ختم کردیتا ہے۔ جس سے اسے سر
میں درد یا بدن درد ہوتا ہے اور وہ بیمار ہوجاتا ہے۔ اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے
صرف اتنا کافی ہے کہ بچے کو نظم و ضبط اور ٹائم ٹیبل کے ساتھ پڑھنے کی طرف متوجہ
کیا جائے۔ اس سلسلہ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نظام الاوقات یا ٹائم ٹیبل کی تیاری
میں والدین بچوں کی مدد کریں مگر اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ کوئی مضمون چھوٹنے
نہ پائے۔ ہر ایک گھنٹے کے بعد وقفہ دیں اور ساتھ ہی اسے یہ احساس دلائیں کہ امتحان
زندگی اور موت کا سوال نہیں ہے۔ صرف امتحانات تک ہے۔ جس کے لیے ہمیں اپنے مقدور
بھر کوششیں کرنی ہیں۔
والدین خود کا بھی خیال
رکھیں
روزانہ صبح فجر سے پہلے اٹھیں اور نماز وغیرہ کے بعد تھوڑا ذہن کو
سکون دیں۔ اپنی غذا پر بھرپور توجہ دیں اور اپنے طرزِ عمل کو بھی صحیح کریں۔ دراصل
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارا رہن سہن وغیرہ ٹھیک ٹھاک نہیں ہوتا۔ کئی دفعہ ہمارے
کھانے پینے، سونے جاگنے، گفتگو اور طرزِ عمل اورعادات ٹھیک نہیں ہوتے۔ ہم چائے
زیادہ پیتے ہیں، مرغن غذا، فاسٹ فوڈ اور کولڈ ڈرنکس زیادہ لیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ
اس کا بھی بچوں پر گہرا اثر پڑتا ہے اور وہ ہر طرح سے لاپرواہ ہوجاتے ہیں۔ خود بھی
گھر میں لڑائی جھگڑے، چڑچڑاپن وغیرہ سے احتراز کریں۔ بچوں کے لیے ورزش بہت ضروری
ہے لیکن بعض اوقات یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ امتحانات کے دوران کھیل کود اور ورزش
بے وقوفی اور وقت کی بربادی ہے۔ اسی لیے بچوں کو کھیل کود کے وقت بھی پڑھائی میں
مصروف رکھا جاتا ہے۔ جبکہ یہ خیال ہرگز درست نہیں ہے بلکہ وہ خود بھی ورزش کریں
اور بچوں سے بھی ورزش کروائیں اور ذہنی تناؤ دور کرنے کی کتابیں پڑھیں اور بچوں
کو بھی ایسی کتابیں پڑھنے کے لیے دیں۔ ہنسی مذاق اور چٹکلے اور لطیفے وغیرہ
سنائیں۔اس سے بھی ذہنی تناؤ نہ صرف خود کا کم ہوگا بلکہ بچوں پر بھی مثبت اثر پڑے
گا۔
والدین مندرجہ ذیل امور پر
توجہ دیں
(۱) اپنے
بچوں کا موازنہ دوسرے بچوں سے نہ کریں۔ اس سے بچوں پر غلط اثرات پڑتے ہیں۔
(۲) بچے
چاہے کتنے ہی نمبرات حاصل کریں انھیں آگے بڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی کریں
اورمقابلہ کی اسپرٹ پیدا کریں۔
(۳) نمبرات
کی بنیاد پر ان کی قابلیت کو نہ پرکھیں۔
(۴) بچے
آرام سے سوئیں اور اچھی نیند لیں، رات کو دیر تک پڑھنے کی بجائے صبح جلدی اٹھ کر
مطالعہ کریں۔ اچھی نیند بہت ضروری ہے۔
(۵) جسم
کو آرام چاہیے لہٰذا بچے کم سے کم آٹھ گھنٹے کی نیند ضرور لیں۔
(۶) متوازن
غذا دیں اور روغنی و فاسٹ فوڈ سے دور رہیں۔
(۷) گھر
کا ماحول مثبت اور اچھا رہے اور بچوں سے ہمدردانہ برتاؤ کریں۔
(۸) مسلسل
پڑھنے کے لیے بچوں پر دباؤ نہ ڈالیں اور نہ ہی زیادہ لاڈ و پیار کریں۔
(۹) بچہ
جس وقت پڑھنا مناسب سمجھتا ہے، اس وقت اسے پڑھنے دیں اور ہمیشہ پڑھو پڑھو کی رٹ نہ
لگائیں۔
(۱۰) بچے
جو امتحان دے کر آئیں اس مضمون کے تعلق سے زیادہ سوال و جواب کرنے سے بہتر ہے کہ
آئندہ امتحان کے لیے اسے تیاری کا موقع دیں اور اس کی رہنمائی کریں جو گزر گیا
اسے چھوڑ کر آئندہ کی فکر کرنے دیں۔
(۱۱) ضروری
نہیں ہے کہ پڑھائی کے وقت ان کے سر پر بیٹھیں اور نگرانی کریں بلکہ اسے آرام و
اطمینان سے پڑھنے کا موقع دیں۔ اسے اس بات کا احساس ہی کافی ہے کہ ضرورت کے وقت
آپ آسانی سے اس کی پہنچ میں ہیں۔
(۱۲) اس
بات کی ضرور کوشش کریں کہ بچوں کی پسند کا کھانا بنائیں اور ان کے ساتھ سیر کو
جائیں اور ان کے من پسند کھیل اور شوق، دلچسپیوں کے بارے میں گفتگو کریں۔
(۱۳) بچوں
کو اپنا کام خود کرنے دیں البتہ ہوم ورک یا گھر کے کام میں ان کا تعاون ضرور کریں۔
ایسا نہ ہو کہ وہ آپ پر ہی منحصر ہوجائیں۔ ان میں خود اعتمادی کی حوصلہ افزائی
کریں۔
(۱۴) چھوٹے
چھوٹے معاملات میں انھیں فیصلہ کرنے کا موقع دیں اور ان کے لیے ہر فیصلہ خود نہ
کریں تاکہ ان میں قوت فیصلہ کی صلاحیت بھی پروان چڑھ سکیں اور وہ مشکل سے نبرد
آزما ہوسکیں۔
(۱۵) جسمانی
کمزوری یا صحت کی خرابی کی وجہ سے انھیں کھیل کود، سیرو تفریح اور ہم جولی سے دور
نہ رکھیں بلکہ حسبِ لیاقت مواقع فراہم کریں۔ اور امتحان کی تیاری سے اس کا تعلق
پیدا کریں اور بیماری وغیرہ کا فوری علاج کروائیں اور اچھے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
(۱۶) سستی،
لاپرواہی، ناکامی پر لعنت و ملامت نہ کریں بلکہ اپنے بچوں کی دلجوئی کریں اور
مناسب رہنمائی کریں اور دوبارہ کوشش کرنے کی اور اچھے انداز میں کرنے پر آمادہ
کریں اور ترغیب دیں۔
(۱۷) ناکامی
کی ایسی وجوہات بتائیں تلقین کریں کہ مستقبل میں ایسا نہ ہو۔
(۱۸) اپنے
بچوں سے امتحانات میں ضرورت سے زیادہ توقع نہ رکھیں بلکہ اتنی ہی امید رکھیں جتنی
کے وہ مکلف ہوسکتے ہیں اور ان کی استعداد اور صلاحیت سے زیادہ امید نہ ہو، ورنہ
اگر وہ پوری نہ ہوں تو وہ بھی مایوس ہوجائیں گے اور آپ بھی۔
مذکورہ بالا امور پر توجہ دی جائے تو امتحانات کا خوف ہمارے اعصاب
سے نکل جائے گا اور بچوں پر بھی امتحان کا ہوّا نہیںہوگا بلکہ حسبِ معمول امتحان
کو بھی وہ پڑھائی کا ایک حصہ سمجھیں گے اور ان کا نتیجہ بھی انشاء اللہ اچھا رہے
گا۔ اور والدین بھی اس کشمکش سے آزاد ہوجائیں گے اور ان پر بھی ذہنی تناؤ یا کسی
قسم کا دباؤ نہیں ہوگا۔
No comments: